افریقی ممالک کے سفر کے دوران ایک تڑپا دینے والا منظر دیکھنے کو ملا جس نے پورے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا‘ زمبیا کی راجدھانی لوساکا میں ہمارے میزبان ایک دینی ادارہ دکھانے کیلئے لے جارہے تھے‘ ہماری گاڑی کے برابر میں ایک کھلا ٹرک جارہا تھا جس پر بہت سے مرد عورت سوار تھے‘ جن میں ایک خاص تعداد معمر لوگوں کی تھی‘ وہ سب ناچتے اور گاتے جارہے تھے‘ اس حقیر نے اپنے میزبانوں جناب نجم الحسن صاحب اور بھائی ریحان جو علماء اور اہل دین کے لوساکا کے بڑے کریم میزبانوں کی حیثیت سےجانے جاتے ہیں‘ سے معلوم کیا کہ یہ لوگ کسی تقریب میں جارہے ہیں یا ان کو کوئی مذہبی فنکشن ہے‘ ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ یہ کوئی تقریب نہیں ہے بلکہ ان سیاہ فام لوگوں میں کسی انسان کی موت ہوگئی ہے‘ اس ٹرک میں میت ہے اور یہ لوگ اسے ناچتے گاتے تدفین کیلئے لے جارہے ہیں۔ رواں دواں اس دردناک منظر کو دیکھ کر تڑپ گیا‘ یہ بیچارے کتنے بے خبر بھولے اور غافل لوگ ہیں کہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں‘ تثلیث کے عقیدہ پر رہ کر‘ ایمان سے محروم‘مرنے والا یہ ان کا عزیز ایک ایسی دردناک آگ میں چلا گیا اور ایسے خطرناک حادثہ کا شکار ہوگیا کہ اس سےزیادہ اندوہناک حادثہ اللہ کی کائنات میں ممکن نہیں اور یہ بھولے بھالے لوگ انجام سے بے خبر خوشی میں ناچ گارہے ہیں اور نبی رحمۃ اللعالمین کے امتی ہم مسلمانان عالم جنہیں چڑھتے سورج کی روشنی میں آنکھوں سے دکھائی دے رہی ہے اس سے زیادہ اس پر یقین اور ایمان ہے کہ ہمارا خونی رشتہ کا بھائی یعنی ہمارے نبی ﷺ کا امتی‘ ہمارے رب کا بندہ‘ جو ایمان سے محروم کفر و شرک پر مرگیا وہ ہمیشہ کی دوزخ کے دردناک عذاب میں چلا گیا‘ اور اس درد ناک آگ میں ہمیشہ ہمیشہ جلایا جاتا رہے گا اور اس عذاب سے خلاصی ممکن نہیں۔ اس کے باوجود روز اٹھتی برادران وطن کی ارتھیوں اور میتوں پر جو ہمارے وطن کے مذہبی رواج کے مطابق اس دنیا میں ہی آگ میں جلنا شروع ہوجاتی ہیں اس آگ کے بعد اس آگ سے سترگنا‘ ہمیشہ کی اندوہناک آگ کی طرف چلے جانے پر ہمیں نہ کوئی افسوس ہوتا ہے نہ غم‘ ایک جھوٹے درد بھرے افسانہ‘ ایک دردناک ناول‘ ایک درد بھرےٹی وی سیریل کو دیکھ کر جس طرح دل پر چوٹ لگ جاتی ہے اور آدمی کا دل بالکل بجھ جاتا ہے کئی بار آدمی کھانا بھی نہیں کھاپاتا چھوڑ دیتا ہے کہ لکھنے والے نے بہت ہی درد بھرافسانہ لکھ دیا حالانکہ یہ یقین ہے کہ یہ افسانہ‘ یہ ناول‘یہ ٹی وی سیریل‘ اس کا منظر بالکل فرضی اور جھوٹا ہے اور یہ ہمارے خونی رشتہ کا بھائی‘ ہمارے نبی ﷺ کا امتی‘ ہمارے رب کا بندہ‘ جس کا جنازہ ایمان کے بغیر جارہا ہے اس کا اس دنیا کی آگ سے لے کر آخرت کی آگ و عذاب کا ہرمنظر بالکل حقیقی ہے۔ یہ کیسا ایمان اور کیسا یقین ہے یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں‘ حالانکہ ختم نبوت کا اعلان فرما کر رب کریم نے ہمیں دنیائے انسانیت کو دوزخ سے بچانے کی فکر اور انسانیت کو دعوت دینے کاکام ہمارا فرض منصبی قرار دیا ہے اور ہمیں اس نبیﷺ کا پیرو کاراور امتی ہونے کا دعویٰ ہے جس کے درد و سوز اور کڑھن کو 128 قرآنی آیات میں محفوظ کیا گیا ہے: ’’شاید آپ(ﷺ) اپنے کو ہلاک کرلیں گے کہ یہ کیوں ایمان نہیں لاتے۔‘‘ (آل عمران)۔ ’’آپ اپنے نفس کو ختم نہ کردیں ان پر حسرت کرتے ہوئے‘‘ آپ کا ارشاد ہے کہ تمہاری مثال اس طرح کی ہے کہ ایک آگ کا الاؤ جلاؤ ہوا ہے اور تم لوگ پروانوں کی طرح اس آگ میں جلےجارہے ہو اور میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر اس سے نکال رہا ہوں کیا نبی اکرم ﷺ کے امتی ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہم اس درد کا ایک شمہ بھی اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں؟ اس کے برخلاف ہمارا حال یہ ہے کہ کفر و شرک میں مرنے والے امتی پر دین دار لوگ منہ بھر کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ فی النار والسقر (اچھا ہوا دوزخ کی آگ میں گیا) ساری ساری رات رونے اور تڑپنے والے اس نبی رحمتﷺ سے ہمیں کیا نسبت ہوسکتی ہے۔ چہ نسبت خاک را باعالم پاک
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں